ایک قاتل کیلئے صدارتی معافی
یہ
2009 کی بات ہے جب عراق میں امریکہ کے دوسپاہی سڑک کے
کنارے نصب بم پھٹنے سے مارے گئے ۔ تحقیقات
کے دوران کئی عراقی گرفتار کرلئے گئے جن
میں ایک نوجوان علی منصور بھی شامل تھا۔ کئی دنوں کی تفصیلی تحقیقات اور تشدد کے
باوجوداسکا حملہ آوروں ستے تعلق ثابت نہ ہوسکا چنانچہ امریکی فوج کے کمانڈر نے علی
منصور کو رہا کرتے ہوئے اپنے ایک افسر مائکل بیہانہ Michael C. Behennکو حکم دیا کہ وہ علی منصور کو اسکے گھر چھوڑآئے۔ دھماکے میں
مارے جانیوالے دونوں امریکی سپاہی مائیکل
بیہانہ کے دوست تھے اور اسے یقین تھا کہ جن لوگوں نے وہ بم نصب کیا
تھاعلی منصود انکو جانتا ہے۔ چنانچہ وہ عراقی نوجوان کو ایک ویرانے میں لے گیا۔مائیکل
علی منصور کو برہنہ کرکے اس پرتشدد کرتا
رہاتاکہ وہ بم نصب کرنے والوں کا نام بتادے لیکن اس بیچارے کو کوئی خبر ہی نہ تھی
چنانچہ مائیکل بیہانہ نے گولی مارکر اسےہلاک کردیا اور لاش وہیں چھوڑ کر یونٹ واپس
آگیا۔
دو
تین دن بعد امریکی فوج کے سپاہیوں نے گشت
کے دوران جب لاش دریافت کی تو یہ معاملہ اٹھا۔ اسوقت مائیکل نے موقف اختیار کیا کہ
علی منصور نے اس پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اوراپنی حفاظت میں اس نے گولی چلائی
جس سے علی منصور مارا گیا۔ تاہم اسکے افسران نے اس کے بیان کو جھوٹا قراردیتے ہوئے
اسے گرفتار کرکے کورٹ مارشل کی سفارش کی۔ فوجی عدالت نے مائیکل کو 25 سال قید
بامشقت کی سزا سنائی لیکن فوج کے پیرول (Parole)بورڈ نے سزاکو 15 سال کردیا گیا اور صرف 5 سال بعد جیل
میں عمدہ'چال چلن' کی بناپر مائیکل کو پیرول پر گھر جانے کی اجازت دیدی گئی۔
آج صدر ٹرمپ نے مائیکل بیہانہ کی بقیہ سزا
معاف کرتے ہوئے اسےقتل کےمقدمے سےباعزت طور
پر بری کردیا۔صدر کا موقف ہے کہ جنگ میں مصروف سپاہیوں کو سزا دینے سے فوج کے
حوصلے پست ہوتے ہیں۔
مکمل
معافی کے بعد 35 سالہ مائیکل اب تمام سہولیات کے ساتھ ریٹائرمنٹ کا لطف اٹھائے گا اور اسے گزشتہ دس سال کے
واجبات بھی اداکئے جائینگے۔حیرت کی بات کہ عراقی حکومت نے اپنے ایک شہری کے قاتل
کی رہائی پر امریکہ سے کوئی احتجاج نہیں کیا۔
No comments:
Post a Comment