شمالی وزیرستان میں پرتشدد کاروائی ۔۔احتیاط
ضروری ہے
شمالی
وزیرستان میں فوج اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں 3 افراد ہلاک
اور 10 زخمی ہوگئے۔ قطع نظر اس بات سے کہ غلطی کس کی ہے اس خونریزی
سے ماہ رمضان کا تقدس پامال ہوا
اور وہ بھی ماہ مقد س کے آخری عشرے میں جب
اہل ایمان راتوں کو سر بسجود ہوکر اللہ
کی رحمت اور مغفرت تلاش کرتے ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پشتون
تحفظ موومنٹ )پی ٹی ایم ( کے
محسن جاوید داوڑ اور علی وزیر میراں شاہ میں دتہ خیل چیک پوسٹ پر پہنچ کر چند روز قبل حراست میں لیے
گئے ’مشتبہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی رہائی‘ کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ سیکورٹی
اہلکاروں نے پی ٹی ایم کی اشتعال انگیزی کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا لیکن پی ٹی ایم کے رہنماوں کی قیادت میں آنے والے مسلح افراد نے فوج پر فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں پانچ سیکورٹی اہل کار زخمی ہو
گئے۔ جوابی فائرنگ میں تین افراد ہلاک اور دس زخمی ہوئے ہیں جنہیں آرمی اسپتال
منتقل کر دیا گیا ہے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ رکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت
آٹھ افراد کو حراست میں لےلیا گیا ۔ محسن جاوید داوڑ موقع سے فرار ہونے میں
کامیاب ہو گئے۔
دوسری
طرف پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر
اتوار کی صبح ایک احتجاجی دھرنے میں شرکت کے لئے قافلے کی صورت میں تحصیل دتہ خیل
جا رہے تھے۔ جب قافلہ 'خڑ کمر' کی چیک پوسٹ کے قریب پہنچا تو سیکورٹی فورسز نے گیٹ بند کرکے انہیں آگے جانے سے روک دیا۔بحث
مباحثے کے بعد لوگوں نے نعرے بازی
شروع کردی جس پرفوج نے بلا اشتعال و
انتباہ گولی چلادی ۔ پی ٹی ایم کے مطابق فائرنگ سے 25
افراد زخمی ہوکر گرپڑے جن میں سے کئی
کارکن دم توڑ گئے۔ اطلاعات کے مطابق علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور ٹیلی
فون لائنز سمیت دیگر مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دئیے گئے ہیں۔
پی ٹی ایم کا موقف ہے کہ انکے غیر مسلح کارکن کئی دن سے
دھرنا دئے بیٹھے تھے جبکہ فوج کا کہنا ہے کہ
پہلے پی ٹی ایم کے کارکنوں نے فوج پر
فائرنگ کی جسکے جواب میں سیکیورٹی
اہلکاروں نے اپنے تحفظ میں گولی چلائی۔
بیانات و موقف میں اس تضاد کی تردید یا تصدیق غیر جابندارصحافیوں کیلئے ممکن نہیں اور اس افسوسناک واقعے کی عدالتی تحقیقات ضروری ہیں۔ اگر پی ٹی
ایم فائرنگ کی مرتکب ہوئی ہے تو اسکے خلاف کاروائی ہونی چاہئے لیکن اگر پی ٹی ایم
کا موقف درست ہے تو انصاف پسند پاکستانیوں
کو فوج کی جانب سے ذمہ داروں کے خلاف فوری
اور موثرمحکمہ جاتی کاروائی کی توقع ہے۔
اس حساس علاقے میں تشدد اور کشیدگی ملک کے حق میں نہیں۔ افغانستان میں پاک سرحد کے قریب داعش کے سرگرم ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی الزام لگارہے ہیں کہ
طالبان سے مقابلے کیلئے نیٹو درپردہ داعش کو منظم و مسلح کررہی ہے۔ اس پس منظر میں
حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے اورقوم کو پاک فوج سے تحمل و ذمہ داری کی امید ہے۔
No comments:
Post a Comment