Friday, May 24, 2019

نیب سربراہ کا اسکینڈل ۔ سارے پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا


نیب سربراہ کا اسکینڈل ۔ سارے پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا
نیب کے سربراہ جناب جسٹس جاوید اقبال کی ایک شادی شدہ خاتون سے فون پر مبینہ گفتگو اسوقت سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نیب کے سربراہ فون پر اس خاتون سے ناشائستہ  باتیں کررہے تھے۔ یہ تو کسی طور ممکن نہیں کہ  ٹیپ  خود جاوید اقبال صاحب یا اس خاتون نے جاری کی ہو۔گویا یہ گفتگوکسی نے ان لوگوں سے پوچھے بغیر ٹیپ کی ہے۔
  قطع نظر اس بات سے کہ بات چیت واقعی قابل اعتراض ہے یا نہیں  نجی گفتگو ریکارڈ کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے اور اگر یہ ٹیپ  خودساختہ یا FAKEہے تو پھر اس بہتانِ عظیم کے خلاف سخت ترین کاروائی ہونی چاہئے۔ہمیں حیرت اور افسوس ہے کہ اب تک سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا ۔
اس پورے واقعے کا شرمناک  پہلو یہ ہے کہ ٹیپ سب سے پہلے نیوزون پر جاری ہوئی۔ نیوز ون کے مالک  طاہر اے خان  وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے میڈیا تھے۔ طاہر صاحب عمران خان کے بہت قریب ہیں اور انھوں نےانتخابی مہم کے دوران الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کی نشریاتی مہم کی قیادت کی ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان  کے مطابق طاہر اے خان کو  اس منصب سے سبکدوش کردیا گیا ہے۔  لیکن  طاہر خان کو برطرف  کرکے عمران خان  بری الذمہ نہیں  ہوسکتے۔
یہ خبر عام ہے کہ جاوید اقبال  صاحب نے چند نئی تحقیقات کا عندیہ دیا تھا جن میں:
·        خیبرپختونخواہ ہیلی کاپٹر اسکینڈل میں وزراعظم کی نامزدگی۔عمران خان پہلے ان تحقیقات کا حصہ تھے لیکن کچھ عرصہ پہلے انکا نام ملزمان کی فہرست سے نکال دیا گیا تھا
·        پشاور بی آر ٹی اسکینڈل
·        وزیردفاع پرویز خٹک کے خلاف ریفرنس
·        مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے خلاف تحقیقات
·        علیم خان کے خلاف چند نئے الزامات
ان خبروں کے پس منظر میں یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ  جسٹس جاویداقبال کی کردار کشی میں تحریک انصاف کا ہاتھ ہے۔ اس  اسکینڈل کے پیچھے مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کا ملوث ہونا بھی خارج از امکان نہیں لیکن نیوزون  نوازشریف اورآصف  زرداری کے سخت خلاف ہے چنانچہ یہ تصور کرنا بہت مشکل ہے کہ جناب طاہر خان نے  دشمنوں سے مل کر اپنے دوست کی پشت میں چھرا گھونپا ہے۔
نظریہِ سازش (Conspiracy Theory) پر یقین رکھنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہ سب  بی بی  مقتدرہ کا کیا دھراہے کہ موصوفہ سیاستدانوں کے ساتھ عدلیہ اور محتسبوں کو بھی گندا کرنا چاہتی ہیں۔
 اس گھناونے کھیل کا سرغنہ    خواہ کوئی بھی ہو اسکا حقیقی نشانہ پاکستان کی ساکھ ہے۔ اسکا تو مطلب یہ ہوا کا ملک کا کوئی بھی ادارہ مفسدوں سے محفوظ نہیں۔ ماضی میں میثاقِ جمہوریت اور اب میثاق اقتصادیات کی بات ہورہی ہے ۔ہمارا خیال ہے ان سب سے زیادہ ضروری میثاق اخلاقیات ہے کہ  آج  جو کچھ جسٹس جاوید اقبال کے ساتھ ہواہے اس قسم کے  جال سے کوئی بھی سیاستدان، عالم ، صحافی، جج اور سول سوسائیٹی کے رہنما محفوظ نہیں۔


No comments:

Post a Comment