ِذاکر نائک کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ
ہندوستانی ادارہ
احتساب Enforcement Directorate (ED)نے بمبئی میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات کرنے والی خصوصی عدالت
کے سامنے ممتازمبلغ اور عالم دین ذاکر نائک کے خلاف بدعنوانی، خرد برد اور منی
لانڈرنگ کے الزامات پر مبنی فردجرم جمع کرادی۔
ذاکر نائک کے خلاف
کاروائی کا آغازچند برس پہلے اسوقت ہوا جب بنگلہ دیش میں دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد معلوم ہوا کہ مبینہ دہشت گرد
ذاکر نائک کی تقریروں سے متاثر ہوکر دہشت گردی کی طرف مائل ہوئے تھے۔اس الزام پر
ہندوستان کے خفیہ اداروں نے ذاکر نائک کی
2007 سے 2011 کے دوران کی جانیوالی تقریروں کی چھان بین کی ۔ خفیہ اداروں نے ذاکر نائک پر عوام کے مختلف
طبقات کے درمیان مذہبی نفرت و ہیجان پیداکرنےکے
علاوہ بہت سی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا۔
اسی کے ساتھ ان کے
خلاف منی لانڈرنگ کا پرچہ بھی کاٹ دیا گیا۔ آج جو فردجرم عائد کی گئی ہے اسکے
مطابق ذاکر نائک نے اپنی جائیداد کی کل قیمت
ساڑھے 50 کروڑ روپئے بتائی ہے حالانکہ انکی مالیت 1 ارب
93 کروڑ کے لگ بھگ ہے جن میں چنائے
کا انٹرنیشنل اسلامک اسکول، 10 سے زیادہ فلیٹ،
3 بڑے گودام، دفتری عمارات اوردوسری جائیداد شامل ہیں۔ EDنے الزام لگایا ہے کہ
آمدنی کا بڑا حصہ تبلیغی جلسوں پر خرچ کیا جارہا ہے جسے امن کانفرنسوں کا نام دیا
جاتا ہے۔الزام لگایا گیا ہے کہ 2012 سے
2016کے دوران 49 کروڑ روپئے دبئی میں ذالر
نائیک کے ذاتی اکاونٹ میں بھیجے گئے۔
اپنے جواب میں ذاکر
نائک نے موقف اختیار کیا کہ تما م جائیداد اور بینک اکاونٹ اسلامک ریسرچ فاونڈیشن (IRF)کے ہیں جو ہندوستان مین رجسٹرد
ہے۔ IRF چنائے کا
اسلامک اسکول چلارہی ہے جہاں ساری دنیا سے مسلمان طلبہ آتے ہیں۔ ان طلبہ کو ہندوستان
کی حکومت تعلیمی ویزے جاری کرتی ہے اور یہ سارا حساب بالکل شفاف ہے۔ امن کانفرنس کا اہتمام بھی IRFکرتی ہے اور اسکے
مالی لین دین سے ذاکر نائک کا کوئی تعلق نہیں۔دبئی پیسے
بھیجنے کے بارے میں ذاکر کا موقف ہے کہ یہ رقم پیس ٹی وی (Peace TV)کی بین الاقوامی نشریات کیلئے شفاف طریقے پر بینکوں کے ذریعے دبئی بھیجی گئی
جسکی ایک ایک پائی کا حساب موجود ہے۔ ذاکر نائک کا کہنا ہے کہ IRFایک رفاحی ادارہ ہے
جسکو دئے جانیوالے عطیات کو خود ہندوستانی
حکومت نے ٹیکس سے مستثنیٰ قراردیا ہےاور اسکی آڈٹ رپورٹ ہر سال ہندوستان کے شعبہ
ٹیکس کو جمع کرائی جاتی ہے۔
خیال ہے کہ یہ
کاروائی ابھی کئی ماہ جاری رہیگی۔
No comments:
Post a Comment