Wednesday, May 1, 2019

طالبان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہاہے


طالبان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہاہے
قطر میں امریکہ اور طالبان  کے درمیان  براہ راست ملاقات کا نیا دور شروع ہوگیاہے۔ اس بار اماراتِ اسلامی افغانستان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر اور زلمے خلیل زاد کے درمیان One-on-oneملاقات ہوئی ہے۔
اس بات چیت کی کوئی تفصیل تو جاری نہیں ہوئی لیکن طالبان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملا برادر نےزلمے خلیل زاد کو باور کرایا کہ امن مذاکرات غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتے۔ بامقصد گفتگو کیلئے ضروری ہے کہ جن نکات پر اتفاق رائے ہوچکا ہے اس پر عملدرآمد کا مخلصانہ آغاز کردیا جائے۔
ملا صاحب کا کہنا تھاکہ گزشتہ ملاقات میں یہ طئے پاچکا تھا کہ اگر طالبان اس بات کی یقین دہانی کرادیں کہ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد افغان سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی تو افغانستان سےفوجی انخلا فوراً  شروع ہو جائیگا۔اس ضمن میں انسدادِ دہشت گردی کے لئے طالبان کے مجوزہ اقدامات اورپسپا ہوتی امریکی فوج کو واپسی کا محفوظ راستہ  دینے کیلئے طالبان  نےجو یقین دہانیاں کرائی ہیں  اس پر امریکی وزارت دفاع یا پینٹاگون مطمئن ہے۔ مذاکرات کے گزشتہ دور کے اختتام پر زلمے خلیل زاد نے خود کہا تھاکہ ایجنڈے کے پہلے دو نکات  یعنی فوجی انخلا اور طالبان کی یقین دہانی پر معاہدے کیلئے مسودے پر بھی  اتفاق ہوچکا ہے۔
 صحافتی حلقوں کے مطابق ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ طئے شدہ نکات پر عملدرآمد سے پہلے مزید گفتگو سود مند نہیں ہوگی ۔ انکا کہنا تھا کہ فوجی انخلا مکمل ہوتے ہی طالبان افغانستان کےمختلف سیاسی و مذہبی طبقات اور سول سوسائٹی کے مشورے سے ایک وسیع البنیاد عبوی حکومت قائم کرینگے جسکے بعد عام انتخابات کے ذریعے اقتدار عوامی نمائندوں کے حوالے کردیا جائیگا۔
یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ملا عبدالغنی برادر کے مطالبات کا زلمے خلیل زاد نے کیا جواب دیا  لیکن ملا صاحب کے دوٹوک  روئے کی بنیاد پر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مذاکرات کا حالیہ دور فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے یعنی یا تو انخلا کے حوالے سے امریکہ کسی ٹھوس ٹائم ٹیبل کا اعلان کریگا یا طالبان مذاکرات ختم کرکے امریکہ کو میدان جنگ میں فیصلے کی دعوت دینگے۔

No comments:

Post a Comment