Friday, May 31, 2019

دوستی پر اصول قربان


دوستی پر اصول قربان
نریندرا مودی اور انکی 57 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا۔ وزیرخارجہ ارون جینٹلی اور وزیرخارجہ شریمتی شسما سوارج نئی کابینہ کا حصہ نہیں۔ اس کابینہ کی اہم بات بی جے پی کے سربراہ امیت شاہ کی شمولیت ہے۔  بی جے پی میں اصول طئے کیا گیا ہے  کہ  جماعتی اور حکومتی مناصب الگ  رہیں گے یعنی     اگر جماعتی عہدیدار کو وزارت یا کسی اور سرکاری ذمہ داری پر فائز کیا گیا تو اسے جماعتی عہدے سے استعفیٰ  دینا ہوگا۔
انتخابی مہم کے مودی جی نے  اپنے جگری دوست  کو نئی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ شاہ صاحب بی جے پی کے سربراہ ہیں جنھیں اپنے دوست کی کابینہ کا رکن ہونے پر کوئی اعتراض نہیں  لیکن وہ پارٹی قیادت کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہتے۔ شاہ صاحب کہتے ہیں جماعتی وابستگی انکے لئے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے لہٰذا وہ بی جے پی کی صدارت سے استعفیٰ نہیں دینگے
چنانچہ  بی جے پی کے دونوں بڑے یعنی وزیراعظم نریندرا مودی  اور امیت شاہ پارٹی دستور (Bye laws)میں ترمیم پر راضی ہوگئے ہیں تاکہ شاہ صاحب   بی جے پی کی صدارت کے ساتھ کابینہ  کا قلمدان بھی اپنے پاس رکھ سکیں۔
بمبئی سے تعلق رکھنے والے امیت شاہ  نے سیاست کا آغاز  دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ سے کیا اور وہ بہت سے مسلمانوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کے دعوےدار ہیں۔ انھوں  نے 2014 میں بی جے پی کی صدارت سنبھالی اور چند ماہ میں اسے بھارت کی مقبول ترین جماعت بنادیا۔
شاہ صاحب 2019 کی انتخابی مہم کے معمار تھے اور انھوں نے ہندو تعصب و قوم پرستی  کو مہم کی بنیاد بنایا۔ جلسوں میں انھوں نے کھل کر کہا  کہ ہندوستان ہندووں کا ہے جہاں سیکیولرازم سمیت کسی عقیدے یا دوسرے سیاسی نظرئے کی کوئی گنجائش نہیں۔یہ بات زوردار طریقے پر غیر معذرت خواہانہ انداز میں باربار اس طرح دہرائی گئی کہ وطن پرستی  کی مخالفت  تو دور کی بات اس پر ہلکے سے تحفظ کا اظہار کرنے والا بھی سیاسی اچھوت بن گیا اور سوشل میڈیا پر اسکی  وہ خبر لی گئی کہ بیچارےکے چودہ طبق روشن ہوگئے۔
اسی نعرے کا اعجاز ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی حتیٰ کہ پلوامہ حملے اور فضائی مہم میں ہندوستان کی شرمناک ناکامی  کے باوجود بے جے پی نے سارے ملک میں بڑے بڑے سیاسی برج الٹ دئے۔انکی حکمت عملی کا کمال ہے کہ مودی کے خلاف رافیل طیارے میں رشوت کا سوال بھی خود کانگریس پرہی  الٹ گیا اور وہ  دفاعی معاملے پر سوال کو غداری قراردینے میں کامیاب ہوگئے۔جلسوں میں عام لوگ کانگریسی رہنماوں ہی کو اس بات پر لعنت ملامت کرنے لگے کہ  شکوک و شبہات اٹھاکر کانگریس ملک کو F-16کے ٹکر کے طیارے سے محروم کرناچاہتی ہے ۔بالاکوٹ کے ناکام حملے پربھی کچھ ایسی ہی  فضا  بنادی گئی  اور اس پر شک کا اظہار کرنے والوں کو پاکستان ایجنٹ قراردیا گیا۔
انتھک محنت کرنے والے امیت شاہ نے مہم کے دوران 161 ریلیوں سے خطاب کیا۔ انھوں نے ڈیڑھ لاکھ  میل کا سفر کرکےلوک سبھا کے 312 حلقوں کا دورہ کیا۔
شاہ  صاحب نے اپنی انتخابی مہم کی بنیاد پاکستان اور مسلمان دشمنی پر رکھی۔ مسلم مخالف چورن  بہار، بنگال اور تلنگانہ جنوبی بھارت کے ہندووں میں بے حد مقبول ہوا اور ان ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف مہم چلا کر شاہ صاحب  نے پہلی بار پارٹی کو اتنی سیٹیں  دلوائیں۔
انھوں نے پارٹی میں 500 پولنگ کمیٹاں بنائی  اور سات ہزار  سینئر رہنماؤں کو کام پر لگایا۔  ہر کمیٹی کی انھوں نے  براہ راست  خودنگرانی کی اور لوک سبھا کی ہر سیٹ پر تین ہزار کل وقتی کارکنوں کا تقرر کیا جنھوں نے انتخابات سے  چھ ماہ پہلے کام شروع کیا۔ سوشل میڈیا  کیلئے  5000ادیبوں، صحافیوں، آئی ٹی ماہرین اور ڈیزائنرز پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی  جس نے 3 ماہ تک دن رات کام کیا۔
خیال ہے کہ امیت شاہ کو  2024  کیلئے  مودی جی کے جانشیں کے طور پر تیار کیا جائیگا۔


No comments:

Post a Comment