Tuesday, May 7, 2019

خلیج میں کشیدگی


خلیج میں کشیدگی
امریکہ کے وزیرخارجہ آج  اچانک عراق پہنچ گئے جہاں 4 گھنٹہ قیام کے دوران انھوں نے صدر برہم احمد صالح، وزیراعظم  عادل عبدالمہدی اور اپنے عراقی ہم منصب  محمد علی الحکیم سے ملاقات کی۔ جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے اپنی ایک پوسٹ میں عرض کیا تھا  مائک پومپیو پہلے سے طئے شدہ دورہ جرمنی کو منسوخ کرکے اچانک  عراق روانہ ہوئے ۔ اس سفر کے حوالے سے اس قدر رازداری برتی گئی کہ انکے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں کو بھی منزل کا معلوم نہ تھا۔
چند روز پہلے  پینٹاگون کے حوالے سے یہ اطلاع شائع ہوئی  تھی کہ 'ایرانی فوج اور انکے حاشیہ بردار (Proxies)شام، عراق یا کھلے سمندروں میں امریکہ کے خلاف بڑی عسکری کاروائی کامنصوبہ بنا رہے ہیں'۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے مطابق ایران آبنائے ہرمز کو بند کرکے خلیجی ممالک سے تیل کی برآمد کا راستہ مسدود کرنا چاہتا ہے۔21 میل چوڑی آبنائے ہرمز  خلیج فارس   کو بحر عرب سے ملاتی ہےاور دنیا کا 30 فیصد خام تیل اسی راستے سے گزرتا ہے۔ کل اپنے ایک  بیان میں قومی سلامتی کیلئے صدر ٹرمپ کے مشیر جناب جان بولٹن نے کہا تھاکہ امریکہ ایران سے جنگ  نہیں چاہتا لیکن اگر امریکی مفادات پر نگاہِ غلط  ٖڈالی گئی تو اچھا نہ ہوگا۔ اسکے ساتھ ہی طیارہ بردار جہاز ابراہام لنکن،  جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں  اور B-52بمبار خلیج فارس کی طرف روانہ کردئے گئے۔
عراقی قیادت سے مائک پومپیو کی ملاقات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں امریکی فوجی  تعینات ہیں اور امریکی وزیرخارجہ دوستانہ انداز میں عراقیوں کو یہ باور کرانے آئے تھے کہ اگر یہاں موجود امریکی سپاہیوں پر حملہ ہوا تو اچھا نہ ہوگا۔ ملاقات کے بعد اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے مائک پومپیو نے کہا  کہ گفتگو بے حد خوشگوار رہی ۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارے فوجیوں کی حفاظت کے حوالے سے عراقیوں کو اپنی ذمہ داری کا اندازہ ہے اور یہاں  امریکی فوجوں کی حفاظت کا انتظام ہماری توقع کے عین مطابق ہے۔
امریکیوں کی جانب سے پیش بندی کے نام پر جارحانہ اقدامات سے ایران  مرعوب یا پریشان نظر نہیں آرہا۔ اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف نے کہا کہ امریکہ اور انکے گماشتوں کو ایران سے کوئی خطرہ  نہیں بلکہ انھیں علاقے کے عوام کی ناپسندیدگی کا سامنا ہے۔ روحانی پیشوا حضرت آئت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر قومی سلامتی نے سرکاری ٹیلی ویژن Press TVپر ایک  بیان میں کہا  کہ امریکیوں میں ایران پر حملہ کرنے کی نہ تو ہمت  ہے اور نہ صلاحیت۔ خلیج میں امریکی طیارہ بردار جہاز اور بمباروں کی آمد معمولی گشت کا  حصہ ہے   اور رائی کا پہاڑ بناکر جا ن بولٹن اپنی نوکری پکی کررہے ہیں۔
امریکہ کیجانب سے  پابندیوں کے  باوجودایرانی تیل  کی فروخت جاری ہے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی بندرگاہوں سے تیل کے ٹینکرز کا ایشیا اور اور یورپ کی طرف سفر معمول کے مطابق نظر آرہا ہے۔ بعض ایرانی ٹینکرز پر چینی اور روسی پرچم لہرارہے ہیں یعنی موذی کا منہہ بند کرنے کیلئے ایرانی تیل کے  بعض گاہک  روس اور چین کے پرچم برادر ٹینکروں پر تیل منگوا رہے ہیں۔ ایرانی  جہاز راں کمپنی نے اپنے کچھ ٹینکرز  نقل و حمل کے روسی اور چینی اداروں کو کرائے  پردے دئے ہیں۔تیل کی قیمتو ں میں کمی سے بھی اندازہ ہورہا ہے کہ ایرانی تیل کی فروخت معمول کے مطابق ہے اور خلیجی ممالک نے  بندش  کی توقع پر اپنی پیداوار میں جو اضافہ کیا ہے اس سے رسد طلب  سے بڑھ گئی ہے جسکی بناپر تیل  کی قیمتیں زوال  کا شکار  ہیں۔ 

No comments:

Post a Comment