Thursday, May 9, 2019

سری لنکا میں دہشت گردی اور مسلمان


سری لنکا میں دہشت گردی اور مسلمان  
21اپریل کو مسیحیوں کی عیدِ ایسٹر پر سری لنکا میں ہونے ہونے والی دہشت گردی کی لرزہ خٰیز واردات کو ایشیا کا 9/11 کہا جارہا ہے اور سری لنکن مسلمانوں کیلئے اسکی قیمت بھی ویسی بھیانک ہےجیسے امریکی مسلمان 18 سال گزرجانے کے بعد آج تک ادا کررہے ہیں۔
ایسٹرایام صوم یا Lentکے اختتام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیا میں مبینہ واپسی پر بطورِعید منایا جاتا ہے۔ظالموں نے مسرت و شادمانی کی مجلسوں اور دعائیہ  تقریبات کو آنسووں اور آہوں میں تبدیل کردیا۔ دارالحکومت کولمبو کے تین گرجا گھروں اور Shangri-laسمیت تین پرتعیش جدید ہوٹلوں میں ایک کے بعد ایک 6بم دھماکوں سے253 بے گناہ مارے گئے جبکہ 500 سے زیادہ افراد آج تک ہسپتالوں میں ہیں جنکی ایک بڑی تعداد معذور ہوچکی ہے۔ متاثرین میں مقامی لوگوں کے علاوہ امریکی، جاپانی ,ولندیزی ، برطانوی اور پرتگالی سیاح و مسیحی زائرین شامل ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق گرجا گھروں اورہوٹلوں پر حملوں کے ایک گھنٹے بعدکولمبو کے مضافاتی علاقے میں دوگھرخودکش بم دھماکوں سے اڑادئے گئے۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ گھر بم کی تیاری اور منصوبہ بندی کیلئے استعمال ہوئے تھے اور انھیں شواہد مٹانے کیلئے زمیں بوس کیا گیا۔
انگریز بہادر کے دور میں سری لنکا کو سیلون کہا جاتا تھا جو اپنی خوش ذائقہ چائے کیلئے مشہور تھا۔ اس ملک کی کل آبادی دو کروڑ 10 لاکھ سے کچھ زائد ہے۔ جسکا 70 فیصد حصہ سنہالی نژاد بودھ اور 24 فیصد سری لنکن تاملوں پر مشتمل ہے جبکہ 6 فیصد ہندوستانی نژادتامل بھی کئی صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ سری لنکن تاملوں میں مسلمانوں کا تناسب 41.6 فیصد ہے گویاسری لنکا کی کل آبادی کا دس فیصد حصہ مسلمان ہے جنھیں مور Moors کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کیلئے مور کا لفظ سب سے پہلے ہسپانیہ میں استعمال ہوا۔اب یورپ کے اکثر ممالک خاص طور سے فرانس اور ہالینڈ میں شمالی افریقہ کے مسلمانوں کیلئے مور کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ فلپائنی مسلمانوں کو مورو فلیپینو Moro Pilipino کہا جاتا ہے اور شائد اسی بنا پر سری لنکا کے تامل مسلمان بھی مور کہلاتے ہیں۔ (لفظ مور کے تاریخی پس منظر کیلئے ملاحظہ ہو ہمارا مضمون جو فرائیڈے اسپیشل میں 2 جون 2017 کو شایع ہوا)۔ ہندوستانی تامل زیادہ تر عیسائی ہیں۔
سری لنکا کی مور آبادی تجارت پیشہ، تعلیمیافتہ اور خوشحال ہے۔مسلمانوں کا مدینہ سینٹرل کالج سارے ملک کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہےجو 1935 میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ دراصل ایک اقامتی اسکول ہے جہاں پہلی سے میٹرک اور اسکے بعد پولی ٹیکنک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ذریعہ تعلیم انگریزی اور تامل ہے۔ابتدائی کلاسوں میں مسلمان بچوں کو ناظرہ قرآن بھی پڑھایا جاتا ہے۔ زراعت کے حوالے سے یہ چائے پر تحقیق کا علاقائی مرکز ہے۔ مدینہ کالج میں طالبات کا تناسب 55 فیصد ہے۔ یہ درسگاہ جدید ترین سہولیات سے مزین ہے جس میں تیز ترین انٹرنیٹ اور کمپیوٹر شامل ہیں۔ مدینہ اسکول ایک چھوٹے سے گاوں مداولا Madawalaمیں واقع ہے اور اس اسکول کی وجہ سے مداوالا سارے سری لنکا کا سب سے ترقی یافتہ گاوں سمجھا جاتا ہے۔ سری لنکا کئی صدیوں سے چائے کی پیداوار کیلئے مشہور ہے جسکی تجارت کا بڑا حصہ مسلمانوں کے پاس ہے۔
سری لنکا کے مسلمان سیاست اور حکومتی امور میں گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ تعلیمیافتہ ہونے کی بنا پر امور مملکت میں انکا اثرو رسوخ بھی ہے۔5 مسلمان وفاقی کابینہ کے رکن ہیں۔بلدیات، شہری منصوبہ بندی، صنعت، اعلیٰ تعلیم، ڈاک اور اوقاف کے قلمدان مسلمانوں کے پاس ہیں۔ تجارت کے میدان میں بھی مورو آبادی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
یہاں موروں کے خلاف بودھ انتہاپسندوں نے سوشل میڈیا پرایک عر صے سے نفرت کی ایک  مہم شروع کر رکھی ہے۔ برما کے نسل پرست بدھ رہنما سیتاگو سیاگو Sitagu Sayadaw کے نفرت انگیز اقتباسات سارے سری لنکا میں تقسیم کئے جارہے ہیں جنکا کہنا ہے کہ 'غیر بودھ کا قتل برا کرما(کام)نہیں'
جیسے برما میں مسلمانوں کو بنگالی کہہ کر انکے آبائی گھروں سے نکال دیا گیا ویسے ہی سری لنکا میں موروں کو ہندوستانی تامل قراردیا جارہا ہے جنکے آباواجداد نے یہاں آکر سنہالیوں کی زمینوں اور جائداد پر قبضہ کرلیا ہے اور اب یہ 'گھس بیٹھئے'دعوت و تبلیغ اور 'جہاد' کے زور سے بودھوں کو اقلیت میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔ اسی نفرت انگیز مہم کے نتیجے میں گزشتہ سال 4 مارچ کو وسطی کولمبو کے شہر کینڈی میں مسلمانوں کی اربوں روپئے کی جائداد کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔معاملہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ مسیحی آبادی کو بھی انتہا پسند بودھوں کی طرف سے برابر دھمکیاں مل رہی ہیں۔ National Christian Evangelical Alliance of Sri Lankaکے مطابق صرف اس سال یہاں مسیحیوں کو ہراساں کرنے ، قتل کی دھمکیوں ، تشدد اور بدسلوکی کے 45 واقعات ریکارڈ کئے گئے اور ان تمام واردات میں انتہا پسند سنہالی بودھ ملوث ہیں۔
ایسٹر کی مذہبی تقریبات پر وحشیانہ بم حملوں کی تکلیف سب سے پہلے خود سری لنکن مسلمانوں نے محسوس کی۔ اس سانحے نے نیوزی لینڈ کے زخموں کو تازہ کردیا جب عبادت میں مصرووف درجنوں مسلمان گولیوں سے بھون دئے گئے۔تاہم واشنگٹن پوسٹ کے مطابق دھماکوں کے صرف 30 منٹ بعد ہندوستان کی خفیہ ایجنسی نے 30 مسلمانوں کی فہرست جاری کردی جو ان دھماکوں کے ذمہ دار ہیں۔نیویارک ٹائمز نے کئی سال پہلے اپنے ایک مضمون میں سری لنکا کے مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند بھارتی ہندووں اور سنہالی بودھ دہشت گردوں کے مسلم مخالف اتحاد کا ذکر کیا تھا۔
بم دھماکوں کے دوسرے دن ابتدائی تحقیقات سے بھی پہلے سری لنکا کے وزیرصحت رجیتا سینارتنے Rajitha Senaratneنے ایک غیر معروف مقامی تنظیم اسلامی توحید جماعت پر ان دھماکوں کاالزام لگایا۔ وزیر صحت کے سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا Maithripala Sirisen سے اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سری لنکا کے صدر بودھ انتہا پسندی کے بارے میں سخت جذبات رکھتے ہیں اور گزشتہ سال وسطی سری لنکا کے شہر کینڈی میں مسلمانوں پر سنہالی دہشت گردوں کے حملے کے خلاف انھوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا جبکہ وزیرصحت کا تعلق بودھ انتہاپسندوں سے ہے چنانچہ انھوں نے اس المناک سانحے کو اپنی ذاتی سیاست کیلئے جارحانہ انداز میں خوب استعمال کیا۔کولمبو میں پر ہجوم اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  وزیراصحت نے کہا کہ انٹیلیجنس اداروں کی رپورٹ کے باوجود صدر سینارتنے نے اسلامی توحید جماعت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
اسی کے ساتھ واشنگٹن میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیرخارجہ مائک پومپیو نے صدر ٹرمپ کے انداز میں زبان پیستے ہوئے 'ازلامک 'ٹیررسٹ (Islamic Terrorist)حملے کی شدید مذمت کی۔ انکاخطاب تو ایران کے خلاف امریکی پابندیوں پر تھا لیکن اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اسلامی دہشت گردی اور اسلامی خلافت کی شدید مذمت کی۔ صدر ٹرمپ اب داعش یا ISIS کی شکست کو اسلامی خلافت کا انہدام کہتے ہیں۔
سری لنکا حکام نے ابتدائی تحقیقات کے بعد نیشنل توحید جماعت کواس حملوں کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس سے پہلے توحیدجماعت کا نام بھی نہ سنا گیا تھا۔ اسلامک کونسل  سری لنکا کے نائب صدر حلیم احمد کا کہناہے کہ  انھوں نے 3 سال پہلے سری لنکا کی عسکری انٹیلیجنس کو توحید جماعت کے بارے میں متنبہ کیا تھا لیکن فوجی قیادت کے خیال میں توحید جماعت انتہا پسند خیالات کے حامل چند منتشر نوجوانوں پر مشتمل ہے جن سے کوئی خطرہ نہیں۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ابتدائی تحقیقات پر سری لنکا کی حکومت کو اعتماد نہ تھا۔ انکا خیال تھا کہ  محدود و معمولی افرادی قوت، مالی وسائل اور عسکری استعداد کی بنا پر توحید جماعت کیلئے اتنی مہلک  اورمنظم و مربوط کاروائی ممکن نہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ انکے کچھ لوگ اس کاروائی میں استعمال ہوئے ہوں لیکن توحٰید جماعت یہ کام تن تنہا نہیں کرسکتی۔ عجیب اتفاق کہ یہ تبصرہ سامنے آتے ہی داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ یہی نہیں بلکہ برسوں سے گوشہ گمنامی میں چھپے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا اپنی آواز میں ایک پیغام بھی سامنے آگیا جس میں موصوف نے نہ صرف سری لنکن 'مجاہدین' پر تحسین کے ڈونگرے برسائے بلکہ ساتھ ہی 'جہاد' کو جنوب ایشیا منتقل کرنے کی نوید بھی سنادی۔
اسی دوران خود کش بمبار کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی جو مبینہ طور پر اس چرچ کے باہر لگے کیمرے سے ریکاڑد کی گئی ہے۔ اس لڑکے کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتہ کہ یہ کون ہے۔ جس طرح اسے فلمایا گیا اس سے تو لگتا ہے کہ جیسے کسی سنسنی خیز  فلم کی شوٹنگ ہو۔ سوائے اسکے کہ یہ لڑکا باریش ہے اور کوئی 'مشتبہ' بات نہیں۔ یہ دہشت گرد اتنا رحم دل ہے کہ اپنے Backpackمیں تباہی کا سامان لے کر چلنے والا یہ خونی راستے میں نظر پڑنے والے ایک ننھے بچے کے پاس جاکر اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتا ہے۔ ویڈیو نے اس اکیلئے نوجوان کو بہت دور سے اور دیر تک فوکس کیا ہوا ہے۔ حالانکہ سیکیورٹی کیمرے Scan کرتے ہیں کسی ایک object کی فلم نہیں بناتے۔آپ کو یاد ہوگا 9/11کے واقعے میں نیویارک کے ٹاور ایسے جلے کہ اسکے تہہ خانے میں ایک بینک کی جانب سے رکھی ہوئی سونے کی سلاخیں تک پگھل کر بہہ گئیں لیکن ان دہشت گردوں کے مبینہ سرغنہ محمد عطا کا پاسپورٹ صحیح سلامت مل گیا جو اسکی پینٹ کی جیب میں تھا۔
داعش کا دعویٰ سامنے آتے ہی سری لنکا کے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی گئی۔ مسلمان آبادیوں پر حملے شروع ہوگئے۔ اس موقع سے انتہا پسند سنہالی بھرپور فائد اٹھارہے ہیں اور کینڈی میں مسلمانوں کی تجارتی عمارات اور کارخانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی کاروائیاں بھی جاری ہیں اور ہزاروں نوجوان جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائےجارہے ہیں۔ ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کرکے برقعے پر پابندی لگادی گئی، کہا تو جارہا تھا کہ پابندی صرف چہرہ چھپانے پر ہے لیکن اب اسکارف حتیٰ کہ ڈوپٹے لینے والی بچیاں بھی عتاب کا شکار ہیں۔ پولیس ناکوں پر بدسلوکی کے علاوہ سنہالی اوباشوں کی جانب سے اسکارف نوچنے کی واردات عام ہیٓں۔ سارے ملک میں مساجد کی نگرانی ہورہی ہے اور نوجوان نماذیوں کو تحقیقاتی خوردبین کے نیچے رکھ لیا گیا ہے۔ ان حملوں میں قادیانی بھی محٖوظ نہیں۔ پاکستان سے سینکڑوں قادیانیوں نے پاکستان مٰیں امتیازی سلوک اور قیدو بند کی شکائت لگاکر سری لنکا میں پناہ لی ہوئی ہے۔ پاکستان سے آنے والےقادیانی پناہ گزینوں کے لئے حکومت نے رہائش کا خصوصی انتظام کیاہے جسکے اخراجات ہندوستان کی احمدیہ جماعت ادا کررہی ہے۔ ٓمظاہروں کے دوران انتہا پسندوں نے قادیانیوں کی رہائش گاہوں کو بھی نشانہ بنایا اور اب یہ لوگ  پولیس کی زیرنگرانی کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ان پولیس  مراکز کے باہر سنہالی انتہا پسند مظاہرے کررہے ہیں جن میں پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا جاررہا ہے۔ قادیانی خود کو مسلمان کہہ کر فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ شاید یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب انھیں مسلمان کہلانا مہنگاپڑرہاہے۔
ملک میں مسلمانوں کی آمد روکنے کیلئے مسلم ممالک سے ویزے کے اجراکی شرائط کو سخت اور ہندوستان سے آنے والے تامل مسلمانوں کو ویزے کا اجرا بندکردیا گیا ہے جس کی وجہ سے چائے کی تجارت متاثر ہورہی ہے۔ ہندوستان کے تامل تاجر سری لنکا چائے کے بڑے خریدار ہیں جنکی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں سری لنکا کے ساتھ ہندوستان کے تامل علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں بھی متاثرہورہی ہیں۔
مساجد و مدارس کے ساتھ اصل نشانہ  مسلمانوں کی اصلاحی اور تبلیغی سرگرمیاں ہیں۔ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے تبلیغی جماعت کے سینکڑوں کارکن  سری لنکا آتے ہیں جنکے لئے کینڈی کی مساجد میں قیام کے انتطامات ہیں۔ ان مبلغین کا ہدف مقامی مسلمان ہیں۔ روائتی گشت کی صورت میں  مسلمانوں سے ملاقات کرکے انھیں نماذ کیلئے مسجد آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔سنہالیوں اور غیر مسلموں سے یہ لوگ ملاقات نہیں کرتے کہ انکا سارا وقت مسلم علاقوں کے گشت اور تعلیم میں گزرتا ہے۔ لیکن 4 مئی کو مقامی لوگوں سے ملاقات اور تبلیغ کے الزام میں 6 سو غیر ملکی شہریوں کا ملک بدر کردیا گیا جن میں 200 اساتذہ بھی شامل تھے جنھیں تبلیغی جماعت کی اصطلاح میں متکلم کہا جاتا ہے۔ ملک بدر ہونے والے زیادہ تر مبلغین کا تعلق بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور مالدیپ سے ہے۔ واپس جانے والے ہندوستانی اور بنگلہ دیشی مبلغین پر انکے ملکوں میں انتہا پسندی کے عنوان سےپرچے کاٹ دئے گئے ہیں۔
 سری لنکا کے وزیر داخلہ وجیرہ ابے وردینا نے بہت ہی ڈھٹائی سے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ سب لوگ  قانونی طور پر سری لنکا آئے تھے۔ ایسٹر حملوں کے بعد انکے ویزے منسوخ کردئے گئے لیکن یہ لوگ اب تک یہاں موجود ہیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ انھیں تنسیخ تاشیرات کا کوئی نوٹس نہیں ملا لیکن انکی درخواست مسترد کرتے ہوئے جہاز پر بٹھانے نے پہلے ان سے بھاری جرماے بھی وصول کئے گئے۔ابے وردینا نے بہت فخر سے کہا کہ  ملک کی موجوہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تبلیغی جماعت کیلئے ویزےکی پابندیاں سخت کردی گئی ہیں۔صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فاضل وزیرٖداخلہ نے یہ کہہ کر مزید سنسنی پیدا کردی کہ مسلم انتہاپسندوں کی جانب سے مستقبل میں مزید حملوں کا خطر ہے۔
سری لنکا کا واقعہ اسوقت پیش آیا ہے جب مسلمانوں کے حوالے دواہم انتخابات ہوریے ہیں۔ یہ حادثہ جس دن پیش آیا اسکے دودن بعد ہندوستانی انتخابات کا دوسرااور اہم ترین مرحلہ تھا جب مودی جی کی اپنی نشست پر ووٹ ڈالے گئے۔جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا سری لنکا حملوں کو سب سے پہلے ہندوستان نے منظم اسلامی دہشتگردی قرارددیا تھا۔ ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را نے حملے میں ملوث تامل مسلمانوں کے نام سر ی لنکا کی حکومت کو فراہم کئے۔اس فہرست کے ساتھ ثبوت تو دور کی بات ان دہشتگردوں کی تصویر تک نہ تھی۔
ہندوستان کے ساتھ امریکہ میں بھی 2020 کے صدارتی انتخابات کیلئے بھی مہم شروع ہوچکی ہے۔ وسط مدت انتخابات میں امریکی مسلمانوں نے سیاہ فام امریکیوں اور ہسپانیویوں کے ساتھ مل کر صدر ٹرمپ کے نسل پرست ایجنڈے کو شکست سے دوچار کیا تھا اور ایوان زیریں سے انکی پارٹی کی بالادستی ختم ہوگئی۔ پاکستانی نژاد مریکیوں کی سب سے بڑی کامیابی اسلام و پاکستان دشمن ڈانا رہراباکر کی شکست تھی جو اس نشست پر کئی دہائیوں سے مسلسل منتخب ہوتے چلے آرہے تھے۔ الحان عمر، رشیدہ طالب، آندرے کارسن اور منیسوٹا کے اٹارنی جنرل کی جرات مندانہ و باوقار مہم کے نتیجے میں امریکی صدر سماجی نکات پر دفاعی پوزیشن پر آگئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے واقعے سے عام امریکی بے حد پریشان ہے اور وہ ڈر محسوس کررہا ہے کہ اگر اسلام فوبیا کو کنڑول نہ کیا گیا تو رمضان میں یہاں بھی ایسا ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سارے امریکہ میں یہودیوں اور مسیحیوں نے نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے حق میں مظاہرے کئے ۔ CNNکے زیراہتمام ہونے والے پہلے صدراتی مباحثے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی ٹکٹ  کے خواہشندوں نے غیر مبہم اندازمیں فلسطینیوں کے حقوق کی حمائت اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کی شدید مذمت کی۔ رائے عامہ کی اس کروٹ سے صدر ٹرمپ اور انکے نسل پرست ساتھی خاصے پریشان ہیں اور وہ انتخاب جیتنے کیلئے اسلام فوبیا اور 'ازلامک ٹیررازم' کے نعرے کو مقبول بنانا چاہتے ہیں۔معاملہ ٹرمپ، مودی، ہالینڈ کےگیرت وائلڈرز، فرانس کی میرین لاپن ، ہنگری کے وکٹر اوربن جیسے دائیں بازو کے انتہا پسندوں تک محدود  نہیں اسلامی دنیا، خاص طور سے پاکستان میں مرکزی (Main stream)میڈیا بھی اسی اسلام دشمن بیانئے کو فروغ دے رہا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 مئی 2019

No comments:

Post a Comment